تحریر: این اے چشتی ہیڈ مرالہ سیالکوٹ
ہماری اولاد بھلے ہم سے پوچھے یا نہ پوچھے ، ہم انہیں یہ ضرور بتائیں کہ ہم فلسطین سے اس لیے محبت کرتے ہیں۔،،، کہ ،،،
01: سر زمین فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن رہاہے۔
02: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔
03: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔
04: حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔
05: حضرت سلیمان علیہ السلام اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔
06: چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا “اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ” یہی اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں “وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی” رکھ دیا گیا تھا۔
07: حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔
08: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیہم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔
09: اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک معجزہ کنواری حضرت بی بی مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔
10: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔
11: ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں
بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔
12: قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف لانا اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔
13: اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے۔
14: فلسطین ہی ارض محشر ہے۔
15: اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں جنگ و جدل اور فساد کا کام شروع ہوگا۔
16: اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔
17: فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ انور پھیرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔
18: حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر تشریف لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے ۔
19: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔
20: سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی کونسی مسجد بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور توں جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔
21: وصال مصطفیٰ صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر
کئی مشکلات سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔
22: اسلام کے سنہری دور، دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔
23: دوسری بار بعینہٖ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔
24: بیت المقدس کا نام قدس نزول قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اسی طرح شہیدوں کا شہر ہے۔
25: مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو “التین” انجیر سے، بلاد فلسطین کو “الزیتون” زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔
26: اور قران پاک کی یہ آیت مبارک (ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادی الصالحون) سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔
27: فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
اور اس وقت سر زمین فلسطین کسی فاروق اعظم ،صلاح الدین ایوبی ، محمد بن قاسم کو پکار رہی ھے اور امت مسلمہ کو چیخ چیخ کر بتلا رہی ہے کہ میرا قصور فقط اتنا ہے کہ میں ہزاروں انبیاء کرام علیہم السلام کی آمین ہوں اور لاکھوں شھداء کی وارث ہوں، ہے کوئی میری پکار سننے والا ہے کوئی مجھے یہودیوں کے چنگل سے آزاد کرانے والا۔
آج اگر امت مسلمہ فلسطین و کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے یکجا نہ ہوئے تو تم اپنی ذات سمیت کسی بھی ارض مقدس کی حفاظت نہیں کر سکو گے اور تمہاری داستاں تک نہ رہے گی داستانوں میں
نوٹ:- تحریر معلوم نہیں کس کی ہے ,لیکن اس تحریر میں چونکہ اہم معلومات ہے اس لیے کچھ اضافے کے ساتھ شائع کروا دیا تاکہ اہل محبت اس سے مستفید ہوسکیں اور مؤرخہ 13 اکتوبر 2023بروز جمعہ المبارک اور مؤرخہ 15 اکتوبر بروز اتوار ملک بھرمیں یومِ اقصیٰ کے طور پر اور بیت المقدس کی سر زمین پر بسنے والے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جا رہا ہے تمام عالم اسلام کے مسلمان فلسطین کے مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کریں اور دعاؤں میں یاد رکھیں ۔
0